رخصت ہوئی جوانی نقشہ بدل رہا ہے
رخصت ہوئی جوانی نقشہ بدل رہا ہے
تھا ناز تم کو جس پر وہ حسن ڈھل رہا ہے
ہو جائے کچھ سے کچھ تو کیا ہے مقام حیرت
اک ایک پل میں رنگ دنیا بدل رہا ہے
ہے دل لگی کسی کی حال زبوں کسی کا
ہنستی ہے شمع محفل پروانہ جل رہا ہے
وہ آج کل توجہ کرتے ہیں میری جانب
دل اس لئے خوشی سے بانسوں اچھل رہا ہے
پوچھو اسی کے دل سے کیا وقت کی ہے قیمت
غفلت میں عمر کھو کر جو ہاتھ مل رہا ہے
دیکھا ہے میکدے میں یہ رنگ شیخ جی کا
پگڑی اچھل رہی ہے پاؤں پھسل رہا ہے
کس کس طرح سے مجھ کو وہ آزما رہے ہیں
میں مر رہا ہوں ان کا ارماں نکل رہا ہے
اس کی نہیں خبر کچھ گھٹتی ہے عمر اپنی
ہم یہ سمجھ رہے ہیں بس وقت ٹل رہا ہے
گردن مری اڑا کر قاتل ہے آب دیدہ
دیکھو مری کرامت لوہا پگھل رہا ہے
آنکھوں پہ تیری ظالم کیا پڑ گیا ہے پردہ
غنچہ سمجھ کے میرے دل کو مسل رہا ہے
کیا چیز زندگی ہے کہتے ہیں موت کس کو
یہ مسئلہ ابھی تک محتاج حل رہا ہے
قیمت میں قدر میں ہیں انمول شعر میرے
دریائے طبع اپنا موتی اگل رہا ہے
جس دور میں تھا رائج گزرا وہ دور برترؔ
اس دور میں وفا کا سکہ نہ چل رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.