رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے
رکوں تو رکتا ہے چلنے پہ ساتھ چلتا ہے
مگر گرفت میں آتا نہیں کہ سایہ ہے
جھلس رہے ہیں بدن دھوپ کی تمازت سے
کہ رات بھر بڑے زوروں کا ابر برسا ہے
ابھی تو کل کی تھکن جسم سے نہیں نکلی
ستم کہ آج کا دن بھی پہاڑ جیسا ہے
سمجھ رہے تھے جسے ایک مہرباں بادل
وہ آگ بن کے ہری کھیتیوں پہ برسا ہے
وہ ایک شخص جسے آج تک نہیں دیکھا
خیال و فکر پہ اس شخص کا اجارہ ہے
دبیز پردوں کے پیچھے نہ جھانکئے کہ وہاں
گئے دنوں کو نشانی بنا کے رکھا ہے
شفیقؔ ڈھونڈنے نکلے تھے گھر سے ہم جس کو
وہ کرچیوں کی طرح راستوں میں بکھرا ہے
- کتاب : Funoon (Monthly) (Pg. 225)
- Author : Ahmad Nadeem Qasmi
- مطبع : 4 Maklood Road, Lahore (25Edition Nov. Dec. 1986)
- اشاعت : 25Edition Nov. Dec. 1986
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.