روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر
روح کے دامن سے اپنی دنیا داری باندھ کر
چل رہے ہیں دم بہ دم آنکھوں پہ پٹی باندھ کر
یہ کہانی ایک ایسے سر پھرے موسم کی ہے
خشک پتوں سے جو لے آیا تھا آندھی باندھ کر
حق اگر کوئی نمو کا تھا تو وہ اس نے ادا
کر دیا ہے بادلوں سے آبیاری باندھ کر
صبح ہوتی ہے تو کنج خوش گمانی میں کہیں
پھینک دی جاتی ہے شب بھر کی سیاہی باندھ کر
اے مرے دریا اگر کوئی بھروسہ ہو ترا
چھوڑ جاؤں میں تری لہروں سے کشتی باندھ کر
گام اٹھتے ہی سفر نے پاٹ دی ساری خلیج
رہروی نے ڈال دی اک سمت دوری باندھ کر
میں سراسر ایک اندیشہ ہوں نقص امن کا
مجھ کو رکھتا ہے لہٰذا میرا قیدی باندھ کر
عجز گوئی پر پڑاؤ ڈال دیتی ہے مری
لفظ یابی معنویت سے ہے تتلی باندھ کر
کھل رہے ہیں سر زمین دل پہ جذبوں کے گلاب
اڑ رہی ہے آج خوشبو خود سے تتلی باندھ کر
جانے سینے میں بکاؤ شے ہے کیا جس کے لیے
دوڑتی پھرتی ہیں سانسیں ریزگاری باندھ کر
وا ہوئے ہوتے دریچے آج امکانات کے
گر نہ رکھ دیتی ہمیں اپنی مساعی باندھ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.