روح کے زخم سے چہرے پہ توانائی ہے
روح کے زخم سے چہرے پہ توانائی ہے
بے حسی شدت احساس کی گہرائی ہے
ہر نفس تشنگیٔ درد پذیرائی ہے
دل جسے کہتے ہیں اک محشر تنہائی ہے
خود فراموش ہوں میں عشق فراموش نہیں
بھولتا تجھ کو تو کہتا تری یاد آئی ہے
وقت کا جبر ہے مجبورئ دل سے بھی سوا
ورنہ اصل کسے تاب شکیبائی ہے
تھی نظر جلوہ ہی جلوہ ترے نظارے تک
اب نظر کیا ہے فقط تہمت بینائی ہے
ہنستے ہنستے کبھی آنسو نکل آ جاتے تھے
پی گئے اب کئی آنسو تو ہنسی آئی ہے
کر گئی شہر کی تہذیب ترقی کتنی
قاتلوں کو بھی یہاں ناز مسیحائی ہے
خوش مزاجی سے نہ کھا اہل چمن کی دھوکا
دل سے بیگانے ہیں چہروں سے شناسائی ہے
داد دے کون مری بے سر و سامانی کی
ہر کوئی اپنی تباہی کا تماشائی ہے
صبر ہی صبر ہے دستور محبت کی شاں
جبر محبوب پہ آئین زلیخائی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.