روح پہنے اک بدن سے مر رہے ہیں
روح پہنے اک بدن سے مر رہے ہیں
حرف جو میرے سخن سے مر رہے ہیں
کوئی خواہش دل میں جل کر مر گئی ہے
اور ہم اس کی جلن سے مر رہے ہیں
خوشبوئیں جانے کیوں ہجرت کر رہی ہیں
پھول جانے کس چبھن سے مر رہے ہیں
مانگ لو کچھ ان سے تم ورنہ یہ تارے
ٹوٹ کر یوں بھی گگن سے مر رہے ہیں
جب سے باہر ذہن سے جینے لگے ہیں
تب سے اندر اپنے من سے مر رہے ہیں
ہجر کی چیخیں دبا لیں ہم نے دل میں
اور اب ان کی گھٹن سے مر رہے ہیں
جس کو شکوہ ہے ہماری بے رخی کا
ہم اسی کے اپنے پن سے مر رہے ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.