روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
روٹھے ہوئے کہ اپنے ذرا اب منائے زلف
پیارا ہے دل تو ناز بھی دل کے اٹھائے زلف
در گزرے دل کی یاد سے ہم جان تو بچی
پیچھے پڑی ہے جان کے اب کیوں بلائے زلف
وہ کیوں بتائے ہم کو دل گم شدہ کا حال
پوچھیں جناب خضر تو رستہ بتائے زلف
بکھرائے بال دیکھ لیا کس کو بام پر
ہر وقت ہائے زلف ہے ہر لحظہ ہائے زلف
کس طرح ان حسینوں کے بھرتی رہی ہے کان
پہنچے نہ تیرے کان میں اے دل صداۓ زلف
بل کھا کے دوش ناز سے گرنا ادھر ادھر
وہ زلف اور ہائے وہ کافر ادائے زلف
لے کر بلائیں خود وہ کشاکش میں پڑ گیا
دل زلف کو ستائے نہ دل کو ستائے زلف
پھندے میں اس کے طائر دل آ رہے گا آپ
مرغ نظر کو دام میں پہلے پھنسائے زلف
پینگائے اور یہ جوبنوں کا رہنمائے دل
صد سالہ زاہدوں کو تو برسوں جھلائے زلف
آشفتگان زلف کا برہم ہے کیوں مزاج
کہتا ہے کون کوئی نہ ہو مبتلائے زلف
سائے سے اس کے بھاگتے ہیں لوگ دور دور
بگڑی ہوئی ہے آج کل ایسی ہوائے زلف
تم نام ان کی زلف کو رکھتے ہو کیوں ریاضؔ
سن لے تو ایک ایک کی سو سو سنائے زلف
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.