سائے کی امید تھی تاریکیاں پھیلا گیا
سائے کی امید تھی تاریکیاں پھیلا گیا
جو شجر پھوٹا زمیں سے بیج ہی کو کھا گیا
کیا گلہ تجھ سے کہ گلشن کا مقدر ہے یہی
ابر گھر کر جب بھی آیا آگ ہی برسا گیا
اب کناروں سے نہ مانگے قطرے قطرے کا حساب
کیوں سمندر کی طرف بہتا ہوا دریا گیا
میری سیرابی بھی میری تشنگی سے کم نہ تھی
میں مثال ابر آیا صورت صحرا گیا
حسن کے ہم راہ چلتا تھا جلوس تشنگاں
عشق تنہا دہر میں آیا تھا اور تنہا گیا
محسنؔ احساں کسی بادل کا ٹکڑا ہے کہ جو
ایک لمحے کے لیے آیا گھرا برسا گیا
- کتاب : naquush (Pg. 259)
- اشاعت : 1979
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.