ساحل کی حمایت میں جزیرے نکل آئے
ساحل کی حمایت میں جزیرے نکل آئے
پانی سے بغاوت کے وسیلے نکل آئے
جب ماند پڑیں یاد کے سورج کی شعاعیں
نسیاں کی خلاؤں میں ستارے نکل آئے
طے ہو گئی تعبیر سے جب ان کی سگائی
خوابوں سے مرے اور بھی رشتے نکل آئے
کس نیند سے جاگا ہوں کہ ہر جیب سے میری
فردا میں چھپائے ہوئے سکے نکل آئے
پیراہن الفاظ بدلنے کے عمل میں
کچھ معنی لکیروں کے بدن سے نکل آئے
ڈالا جو کبھی دھوپ کے سانچے میں بدن کو
کامل مجھے کرنے کئی سائے نکل آئے
کھولا جو خلش نے کبھی صندوق جدائی
امکاں سے لکھے وصل کے نسخے نکل آئے
لیٹا تھا میں اک دشت تیقن میں اکیلا
ایڑی بھی نہ رگڑی تھی کہ چشمے نکل آئے
یوں ضبط کی مٹھی سے بکھرتے گئے دانے
ہر گنبد خواہش سے پرندے نکل آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.