ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا
ساحلوں کی خامشی نے جب فسردہ کر دیا
خواہشوں کی کشتیوں کو غرق دریا کر دیا
جسم کیا تھا لذتوں کا ایک دریا تھا کبھی
ہر کسی نے پی کے جس کو آج صحرا کر دیا
آج بیٹھے تک رہے ہیں عمر کا خالی گلاس
موسموں کا مے کدہ یہ کس نے سونا کر دیا
میں برہنہ جسم اس کا اوڑھ کر پھرتا رہا
جامہ پوشی کے جنوں نے مجھ کو ننگا کر دیا
تھا یقیناً دوستوں کی صف میں اک دشمن مرا
بے خبر پا کر اچانک جس نے حملہ کر دیا
سوچ کی ساری بصیرت چھیننے والے بتا
تو تو سورج تھا مرا کیوں مجھ کو اندھا کر دیا
وہ جو کل تک مانگتے تھے مجھ سے قد میرا ادیبؔ
شعر کے ناقد نے ان کو مجھ سے اونچا کر دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.