سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا
سائیں اپنے نفس کو ہم نے یوں ہی نہیں ناکام کیا
عمر گزاری در بدری میں کب کس جا آرام کیا
غیر تو آخر غیر ہیں یارو کیا سوچیں اب کس کے تئیں
ہم نے کون جگہ اپنے کو پابند احکام کیا
اہل خرد نے جشن بہاراں یوں بھی منایا اب کے برس
جیب و گریباں چاک کیے اور دیوانوں میں نام کیا
ہر در پہ اک بانگ لگاویں بھلا کرو بس بھلا کرو
ایک ہی شکوہ ایک ہی نالہ صبح کیا اور شام کیا
اونچے اونچے محلوں سے کیا غرض ہے ہم بنجاروں کو
ٹھنڈی چھایا دیکھ کے خود کو کبھی نہ زیر بام کیا
میں ہی تھا اک آنکھ نہ بھاؤوں وہ تو اب بھی یار ہیں تیرے
جن لوگوں نے تیرا چرچا بازاروں میں عام کیا
دکھ نا پہنچا کسی کو بابا تیرے خالدؔ سے
ان نے تو سو بار خوشی کو غم کے عوض نیلام کیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.