ساکت ہے بدن خواب کی لذت سے گزر کر
ساکت ہے بدن خواب کی لذت سے گزر کر
حیرت میں ہے دل کوچۂ حیرت سے گزر کر
اک نخل شناسائی میں رکنا پڑا تا دیر
پایا اسے پھر دشت وضاحت سے گزر کر
شمشیر دعا کرکے مصلے سے اٹھائی
پھر جنگ پہ نکلا میں عبادت سے گزر کر
اک زخم کے اندر بھی تو ہوتا ہے کہیں زخم
بھرتا جو نہیں کار جراحت سے گزر کر
اک قید مسلسل ہے کہ ہر دن مری تنہائی
کمرے میں چلی آتی ہے خلقت سے گزر کر
دشمن کے تعاقب میں تھی مشکل بڑی درپیش
جانا تھا مجھے مال غنیمت سے گزر کر
منظر پس منظر میں چھپا ہے کہیں عریاں
تصویر میں پردے کی رعایت سے گزر کر
میں نیند میں چل کر ہی اٹھا لاؤں گا مہتاب
اس خواب کی بوسیدہ عمارت سے گزر کر
تھا کار ضرورت بھی گراں کار جنوں پر
معلوم ہوا رنج معیشت سے گزر کر
میں دیر سے پہنچا تھا سو بالوں میں لگا پھول
مرجھا ہی گیا لمس کی حسرت سے گزر کر
اس شوخ سے نادم ہے مری طاقت گفتار
ہر لفظ ادا ہوتا ہے لکنت سے گزر کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.