سامنے اک بے رحم حقیقت ننگی ہو کر ناچتی ہے
سامنے اک بے رحم حقیقت ننگی ہو کر ناچتی ہے
اس کی آنکھوں سے اب میری موت کی خواہش جھانکتی ہے
جسم کا جادو اس دنیا میں سر چڑھ کر جب بولتا ہے
روح مری شرمندہ ہو کر اپنا چہرہ ڈھانپتی ہے
اس کی جھولی میں سب کھوٹے سکے ڈالے جائیں گے
جانتی ہے یہ اندھی بھکارن پھر بھی دن بھر مانگتی ہے
میرا خون پیا تو اس کو تازہ لہو کی چاٹ لگی
اب وہ ناگن اپنی زباں سے اپنا لہو بھی چاٹتی ہے
اب کی بار اے بزدل قسمت کھل کر میرے سامنے آ
کیوں اک دھچکا روز لگا کر باقی کل پر ٹالتی ہے
ماضی کی تربت سے نکل آتی ہے کسی کی یاد کی لاش
میری سوچ مری دشمن ہے روز مصیبت ڈالتی ہے
صحرا کا بادل دو بوندیں برسا کر اڑ جاتا ہے
پیاسی بنجر بانجھ زمیں کچھ اور زیادہ ہانپتی ہے
اب تک سوئی ہوئی تھی وہ آسائش کے گہوارے میں
انگڑائی سی لے کر شبنمؔ آج انا کیوں جاگتی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.