سانس کے ہمراہ شعلے کی لپک آنے کو ہے
سانس کے ہمراہ شعلے کی لپک آنے کو ہے
ایسا لگتا ہے کوئی روشن مہک آنے کو ہے
پھر پس پسپائی میرا حوصلہ زندہ ہوا
آسماں سے پھر کوئی تازہ کمک آنے کو ہے
ایک خلقت ہی نہیں ہے بد گمانی کا شکار
اس کی جانب سے مرے بھی دل میں شک آنے کو ہے
ایک مدت سے چراغ سرد سا رکھا ہوں میں
اس توقع پر کہ آنچل کی بھڑک آنے کو ہے
اے سفر کی رائیگانی آیتوں کے ساتھ چل
پھر وہی جنگل وہی سونی سڑک آنے کو ہے
بید مجنوں ہو رہے ہیں تیر کیا تلوار کیا
میرے دشمن میں بھی اب شاید لچک آنے کو ہے
اب تو اس چھت پر کوئی ماہ شبانہ چاہئے
سایۂ قامت فصیل شام تک آنے کو ہے
راستے گم ہو رہے ہیں دھند کی پہنائی میں
سردیوں کی شام ہے پھر اس کا چک آنے کو ہے
- کتاب : اگر میں شعر نہ کہتا (Pg. 44)
- Author :عباس تابش
- مطبع : ریختہ پبلی کیشنز (2022)
- اشاعت : 2nd
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.