ساقی بھی مئے گلفام بھی ہے رندوں کو صلائے عام بھی ہے
ساقی بھی مئے گلفام بھی ہے رندوں کو صلائے عام بھی ہے
گردش میں چھلکتا جام بھی ہے بہکیں تو مگر الزام بھی ہے
سب کچھ میں لٹا دیتا لیکن کیا کہیے کہ ان کی نظروں میں
ہشیاری کی تلقین بھی ہے سر مستی کا پیغام بھی ہے
تنویر نمود صبح بھی ہے عارض کے دمکتے جلووں میں
زلفوں کے مچلتے سائے میں تصویر سواد شام بھی ہے
اے دل یہ جنوں کی منزل ہے کچھ سود و زیاں کی فکر نہ کر
ہر گام پہ یاں رہرو کے لیے آغاز بھی ہے انجام بھی ہے
اب دیر و حرم کی شورش کو اے واعظ ناداں بھول بھی جا
یہ بزم کہ بزم رنداں ہے یاں کفر بھی ہے اسلام بھی ہے
شہرت بھی ملی عزت بھی ملی لیکن یہ جمالؔ نغمہ سرا
دلگیر بھی ہے برباد بھی ہے ناشاد بھی ہے ناکام بھی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.