ساقی ترے ساغر کے طلب گار بہت ہیں
ساقی ترے ساغر کے طلب گار بہت ہیں
مے کم ہے مگر بزم میں مے خوار بہت ہیں
چوکھٹ سے تری اٹھ کے نہ جائیں گے کہیں اور
دیوانے ہیں پھر بھی یہ سمجھ دار بہت ہیں
ہے ان کی بھی آنکھوں میں ترے دید کی خواہش
جو ہیں پس دیوار وہ خوددار بہت ہیں
بس جنس وفا کی کوئی قیمت نہیں ملتی
مٹی بھی جو بیچو تو خریدار بہت ہیں
کہتی ہیں یہ تالاب میں بہتی ہوئی لاشیں
اس گاؤں میں قاتل کے طرف دار بہت ہیں
اس دل کے دھڑکنے کی صدا کون سنے گا
اس ملک میں اینٹوں کے پرستار بہت ہیں
کوئی بھی سر دار نظر آیا نہ ہم کو
کہنے کے لئے میثم تمار بہت ہیں
وارث کوئی ملتا نہیں اب لوح و قلم کا
کہنے کو تو رضوانؔ قلم کار بہت ہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.