سارے امیدوں کے پھولوں کو کچل کر رکھ دیا
سارے امیدوں کے پھولوں کو کچل کر رکھ دیا
شیشۂ دل پر ہمارے اس نے پتھر رکھ دیا
اپنی بستی سے اندھیرا دور ہو یہ سوچ کر
آگ کی بانہوں میں ہم نے اپنا چھپر رکھ دیا
اس کی آنکھوں میں جو دیکھے تھے بوقت رخصتی
نام ان اشکوں کا ہم نے لعل و گوہر رکھ دیا
کیا نئی تہذیب میرے گھر تلک بھی آ گئی
سر کا دوپٹہ جو بیٹی نے اٹھا کر رکھ دیا
ساری ہی تحریر ملیا میٹ ہو کر رہ گئی
اس نے کاغذ پر جو اپنا دیدۂ تر رکھ دیا
مصلحت کے پھولوں میں خنجر نہ ہو کوئی چھپا
سوچئے قدموں پہ اس نے کیوں مرے سر رکھ دیا
خود وہ اپنے آپ میں مجبور تھا زاہدؔ بہت
بے وفائی کا مگر الزام مجھ پر رکھ دیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.