ساری خوش فہمی شعور و فلسفہ پانی ہوا
ساری خوش فہمی شعور و فلسفہ پانی ہوا
وہ ادھر بولے ادھر میرا کہا پانی ہوا
بھیگتے لہجے میں کیا کرتے کوئی اظہار حال
لب سے جو نکلا وہی حرف دعا پانی ہوا
تجھ سے مل کر گم ہوئے خود اپنے خد و خال بھی
میں کہ جیسے برف تھا تو نے چھوا پانی ہوا
شعر میں ممکن نہیں تعریف اس کے حسن کی
دیکھ کر جس کا سراپا آئینہ پانی ہوا
سارے لا ینحل مسائل ہاتھ ملتے رہ گئے
میں سجا کر اپنا پندار آنا پانی ہوا
یوں ہی آنکھوں میں نہیں آ جاتے آنسو دوستو
درد کا احساس جب حد سے بڑھا پانی ہوا
الاماں اے خود فریبی المدد خوش فہمیو
اب کسے آواز دوں سر سے سوا پانی ہوا
ہم نے بالآخر وفا کی لاج رکھ لی دوستو
لیکن اس جہد عمل میں خون کا پانی ہوا
عمر بھر کی جستجو تنکوں کی صورت بہہ گئی
کھو گئیں سمتیں ظفرؔ جب راستہ پانی ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.