ساتھ وحشت ہو تو پروائی کہاں سے آئے
ساتھ وحشت ہو تو پروائی کہاں سے آئے
رت خزاں کی ہو تو رعنائی کہاں سے آئے
تو نے دیکھے ہی نہیں عشق میں پیچ و خم جب
پھر ترے شعروں میں گہرائی کہاں سے آئے
جس کے ہونٹوں پہ سدا جھوٹ رہا کرتا ہے
اس کے کردار میں سچائی کہاں سے آئے
میرے ہر زخم کی گہرائی سمجھنے والے
سوچتا ہوں کہ مسیحائی کہاں سے آئے
جس مکاں میں بھی پنپتی ہے برائی لوگو
اس مکاں میں بھلا اچھائی کہاں سے آئے
میری شوریدہ مزاجی کو پرکھنے والے
پوچھتے ہیں کہ تماشائی کہاں سے آئے
زندگانی کی علامت ہے صداقت احمدؔ
دل ہی کالا ہو تو دانائی کہاں سے آئے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.