ساز جاں پر غم کی جب نغمہ زنی ہوتی نہیں
ساز جاں پر غم کی جب نغمہ زنی ہوتی نہیں
دل کی دھڑکن ترجمان زندگی ہوتی نہیں
یا توجہ ہی نگاہ حسن کی ہوتی نہیں
یا یہ کہیے میری حیرت میں کمی ہوتی نہیں
یوں مرا افسانۂ غم نامکمل رہ گیا
جیسے تکمیل مذاق عاشقی ہوتی نہیں
ہاں کبھی غم بھی نظر آتا تھا ہم رنگ خوشی
اب خوشی کے وقت بھی دل کو خوشی ہوتی نہیں
ہائے وہ آنسو جو دل کی آگ بھڑکاتے رہے
اف وہ سوز مستقل جس میں کمی ہوتی نہیں
دیکھنا یہ انتہائے وضع داری دیکھنا
مانع آداب الفت بے خودی ہوتی نہیں
دل کی بیتابی اب اس منزل پہ لے آئی مجھے
جس جگہ حائل خودی و بے خودی ہوتی نہیں
کیوں مری لغزش کو نادانی کا طعنہ دیجئے
عشق ہوتا ہے تو عقل و آگہی ہوتی نہیں
جانے کن نظروں سے دیکھا تھا حزیںؔ کو آپ نے
آج تک بیتابیٔ دل میں کمی ہوتی نہیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.