سازشیں تھیں بپھر گیا پانی
سازشیں تھیں بپھر گیا پانی
میں جو ڈوبا اتر گیا پانی
نرم لہجے سے کاٹیے پتھر
یہ سکھا کے ہنر گیا پانی
پانیوں کو بھی کاٹ دے یہ کٹار
اس سیاست سے ڈر گیا پانی
ایک سہمی ہوئی سی مچھلی ہے
کیسے پانی سے ڈر گیا پانی
ماریے ہاتھ پیر جان بچے
اب تو سر سے گزر گیا پانی
دفن ساگر میں ہو گیا دریا
یوں تو اپنے ہی گھر گیا پانی
جل رہے گھر کی بات آئی تو
پھر زباں سے مکر گیا پانی
دوب کی نوک پہ ہے موتی سا
یوں پلک پہ ٹھہر گیا پانی
کشتیاں جب دعائیں کرنے لگیں
رفتہ رفتہ اتر گیا پانی
کتنے پربت ڈبو کے آیا تھا
ایک تنکے سے ڈر گیا پانی
پھر وہ مڑ کر کبھی نہیں آیا
جو پلوں سے گزر گیا پانی
یوں تو چھلکا ہے تیری آنکھوں سے
میری آنکھوں میں بھر گیا پانی
میں تیرے ہی بدن کا حصہ ہوں
آگ سے بول کر گیا پانی
ایک بدلی برس پڑی جو خیالؔ
دیکھ پھر در بہ در گیا پانی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.