سب دیدۂ حیرت سے تکتے ہیں دہن اس کا
سب دیدۂ حیرت سے تکتے ہیں دہن اس کا
دریا کی روانی ہے یا طرز سخن اس کا
گل بوٹے ہمارے ہیں اور صحن چمن اس کا
زندہ ہے ابھی ہم سے دنیا میں چلن اس کا
سورج بھی تپش اس کے رخسار سے پاتا ہے
اور کرتا ہے دل روشن کندن سا بدن اس کا
گفتار میں پائی ہے شبنم سی نمی اس نے
نغموں کی طرح گونجے ہے شیریں سخن اس کا
پردیس میں رہ کر بھی میں ذہن میں رکھتا ہوں
اک اس سے میرا وعدہ اور مجھ سے وچن اس کا
خوابیدہ امنگیں بھی انگڑائیاں لیتی ہیں
دمکے جو تصور میں چندن سا بدن اس کا
محفل میں سناتا ہے جب جوشؔ غزل اپنی
سب دیکھتے رہتے ہیں اعجاز سخن اس کا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.