سب کچھ سر بازار جہاں چھوڑ گیا ہے
سب کچھ سر بازار جہاں چھوڑ گیا ہے
یہ کون کھلی اپنی دکاں چھوڑ گیا ہے
جاتے ہی کسی کے نہ وہ نغمہ نہ اجالا
خاموش چراغوں کا دھواں چھوڑ گیا ہے
وحشی تو گیا لے کے وہ زنجیر و گریباں
اک نوحہ کناں خالی مکاں چھوڑ گیا ہے
سو قافلے اس راہ سے آئے بھی گئے بھی
اب تک میں وہیں ہوں وہ جہاں چھوڑ گیا ہے
بھیجا ہے یہ کس نے ورق سادہ مرے نام
کیا کیا گلے بے لفظ و بیاں چھوڑ گیا ہے
تا دور جہاں اب سے سر راہ چراغاں
وہ نقش قدم اپنے وہاں چھوڑ گیا ہے
اٹھ کر تری محفل سے گیا ہے جو مغنی
نغمات کے پردے میں فغاں چھوڑ گیا ہے
بے سمت سا اک آج کہ ماضی ہے نہ فردا
یہ وقت کا سیلاب کہاں چھوڑ گیا ہے
پہلو میں کہاں دل جو سنبھالے کوئی نوشادؔ
اک داغ کی صورت میں نشاں چھوڑ گیا ہے
- کتاب : Aathwan Sur (Pg. 52)
- Author : Naushad Ali
- مطبع : Naushad Academi Of Hindustani Sangeet (2006)
- اشاعت : 2006
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.