سب نے ہونٹوں سے لگا کر توڑ ڈالا ہے مجھے
سب نے ہونٹوں سے لگا کر توڑ ڈالا ہے مجھے
کوزہ گر نے جانے کس مٹی سے ڈھالا ہے مجھے
اس طرح تو اور منظر کی اداسی بڑھ گئی
میں کہیں خود میں نہاں تھا کیوں نکالا ہے مجھے
شاخ پر رہ کر کہاں ممکن تھا میرا یہ سفر
اب ہوا نے اپنے ہاتھوں میں سنبھالا ہے مجھے
کیوں سجانا چاہتے ہو اپنی پلکوں پر مجھے
رائیگاں سا خواب ہوں آنکھوں نے ٹالا ہے مجھے
اک ذرا سی دھوپ کو لے کر یہ ہنگامہ ہوا
میری ہی پرچھائیوں نے روند ڈالا ہے مجھے
جانے کتنے چاند تارے رات کے جنگل میں تھے
یاد لیکن ایک جگنو کا اجالا ہے مجھے
اک دھڑکتے دل سے میں نے خود کو پتھر کر لیا
اب بتوں کے ساتھ ہی بس رکھنے والا ہے مجھے
زندگی نے اپنا کوئی خواب بننے کے لیے
ایک اک دھاگے کی صورت کھول ڈالا ہے مجھے
- کتاب : Bechehragi (Pg. 54)
- Author : bharat bhushan pant
- مطبع : Suman prakashan Alambagh,Lucknow (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.