صبا دیتی ہے گل کو یہ پیام آہستہ آہستہ
صبا دیتی ہے گل کو یہ پیام آہستہ آہستہ
نکل جائے گی خوشبو وقت شام آہستہ آہستہ
بنا کر عشق کو اپنا امام آہستہ آہستہ
اجل سے لے رہا ہوں انتقام آہستہ آہستہ
رلائے گی مرے اسلوب کی شائستگی اس کو
پڑے گا جو کوئی میرا کلام آہستہ آہستہ
ابھر کر سامنے آئے گا جب کوئی نیا چہرہ
بھلا دے گا زمانہ میرا نام آہستہ آہستہ
ضرورت آدمی سے اس کی غیرت چھین لیتی ہے
گرا دیتی ہے انساں کا مقام آہستہ آہستہ
خدا وندان دنیا کو بھلا یہ کون سمجھائے
لیا کرتی ہے قدرت انتقام آہستہ آہستہ
خطائیں جس قدر سرزد ہوئیں مجھ سے محبت میں
ہوئی جاتی ہیں وہ مشہور عام آہستہ آہستہ
اسی امید پہ جھیلی ہیں فن کی سختیاں میں نے
ہنر مندوں میں ہوگا میرا نام آہستہ آہستہ
ابھی ناشادؔ ہم مشق ستم تنہا ہیں مقتل میں
ہمارے بعد ہوگا قتل عام آہستہ آہستہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.