سبھی کی تھی نظر اس پر گریبانوں پہ کیا گزری
سبھی کی تھی نظر اس پر گریبانوں پہ کیا گزری
کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ دیوانوں پہ کیا گزری
نہ پوچھو اس بھری محفل میں انسانوں پہ کیا گزری
ہوئے جب شمع کے ٹکڑے تو پروانوں پہ کیا گزری
دھواں بن کر اڑا جاتا ہے میخانے کا مے خانہ
میرا دل توڑ کے ساقی کہ پیمانوں پہ کیا گزری
ہر ایک جام مے گلگوں کا دعویدار بن بیٹھا
تری نیچی نظر اٹھتے ہی ایمانوں پہ کیا گزری
ہزاروں سال سر ساحل سے ٹکراتی رہیں موجیں
مری کشتی سے ٹکر لے کے طوفانوں پہ کیا گزری
ابھی فیاضؔ پھر تہذیب لے گی اک نئی کروٹ
یہ پھر تاریخ لکھے گی کہ انسانوں پہ کیا گزری
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.