ثبت ہے چہروں پہ چپ بن میں اندھیرا ہو چکا
ثبت ہے چہروں پہ چپ بن میں اندھیرا ہو چکا
دیکھنے آئے ہو کیا لوگو تماشا ہو چکا
آبرو کے سرخ موتی پھر سے کالے پڑ گئے
جسم کے اندر لہو کا رنگ پیلا ہو چکا
حسرتوں کے پیڑ سب کے سر سے اونچے ہو گئے
آرزو کا زخم پہلے سے بھی گہرا ہو چکا
پھر مجھے نادیدنی زنجیر پہنائی گئی
علم تک مجھ کو نہیں اور میرا سودا ہو چکا
بر سر پیکار اپنے آپ سے ہوں کیا کروں
میرا دشمن بھی مری مٹی سے پیدا ہو چکا
کیسے ٹوٹے ہیں دلوں کے باہمی رشتے نہ پوچھ
ہے نگر آباد اور ہر شخص تنہا ہو چکا
تم کہے جاتے ہو ایسی فصل گل آئی نہیں
اور اگر میں یہ کہوں سو بار ایسا ہو چکا
کون ہوں میں اپنی صورت بھی نہ پہچانی گئی
آئینہ تکتے ہوئے مجھ کو زمانہ ہو چکا
دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ماورا کیا چیز ہے
یہ امید و بیم کا دفتر پرانا ہو چکا
کب تلک دل میں جگہ دو گے ہوا کے خوف کو
بادباں کھولو کہ موسم کا اشارہ ہو چکا
اب زباں سے بھی کہو شہزادؔ کیوں خاموش ہو
دل میں جو کچھ تھا وہ آنکھوں سے ہویدا ہو چکا
- کتاب : Deewar pe dastak (Pg. 662)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.