سچ کہتے ہو ایک کہانی کس کس سے دہراؤ گے
سچ کہتے ہو ایک کہانی کس کس سے دہراؤ گے
جب بھی میرا نام سنو گے ناواقف بن جاؤ گے
ریت کے گھر سے کھیلو جب بھی ٹوٹے گا بن جائے گا
دل سے نہ کھیلو ٹوٹ گیا تو تم بھی کھیل نہ پاؤ گے
تم تو خود بھی شیشہ نکلے تم سے کیا امید کریں
ہم سمجھے تھے پربت پربت تم پتھر پگھلاؤ گے
چڑھتا سورج گھٹتے گھٹتے مغرب میں کھو جاتا ہے
اس نگری کی ریت یہی ہے تم بھی ٹھوکر کھاؤ گے
آنکھوں کی بستی نے تم کو شبنم نام سے جانا تھا
کس کو خبر تھی دل نگری میں تم پتھر کہلاؤ گے
پھولوں سے زخمی ہیں روحیں اب جسموں کی باری ہے
پتھرائی ہیں آس میں آنکھیں کب پتھر برساؤ گے
نقویؔ گھوم رہی ہے دھرتی تم بھی اپنا کام کرو
یادوں کے گنبد میں آخر کب تک جی بہلاؤ گے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.