صد حیف عدم کو ٹھکرا کر ہستی کی زیارت کر بیٹھے
صد حیف عدم کو ٹھکرا کر ہستی کی زیارت کر بیٹھے
ناداں تھے ہم نادانی میں جینے کی حماقت کر بیٹھے
خالق نے نوازا روز ازل کس طرح ہمیں کیا بتلائیں
لیکن جو امانت پائی تھی ہم اس میں خیانت کر بیٹھے
اس دیس میں جب ہر رہزن کو رہبر کا شرف پاتے دیکھا
قدروں کے محافظ ہو کر بھی قدروں سے بغاوت کر بیٹھے
نوخیز گلوں کے عارض پر جو موت کی زردی لے آئی
اس باد صبا سے گھبرا کر طوفاں سے محبت کر بیٹھے
وہ دور گیا جب ظالم کو مائل بہ کرم کرتی تھی وفا
ہم کر کے محبت دشمن سے سامان قیامت کر بیٹھے
آزار نہ جانے کتنے تھے شافیؔ سے مداوا کیا ہوتا
توحید کے دیوانے تھے مگر اصنام کی طاعت کر بیٹھے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.