صدیاں گزار دیں یہاں لمحے کو کاٹ کر
صدیاں گزار دیں یہاں لمحے کو کاٹ کر
رستہ بنا چکا ہوں میں رستے کو کاٹ کر
جو بھی قریب اس کے گیا وہ جھلس گیا
رکھا ہو جیسے جسم میں شعلے کو کاٹ کر
تلوار کا جو کام تھا نظروں سے لے گیا
ہونٹوں کا وار کر دیا برچھے کو کاٹ کر
رکھنا ہے کس طرح مجھے گرداب کا وجود
سیکھا ہے میں نے کام یہ رقبے کو کاٹ کر
یہ لفظ جو ہیں شعر کے قطرے ہیں خون کے
ہوتا ہے ایک مصرع کلیجے کو کاٹ کر
بستر پہ میری آہوں کی لاشیں سلگ رہیں
دیکھا ہے میں نے رات یہ تکیے کو کاٹ کر
اک روز کھل گئی مری رفتار کی گرفت
آگے نکل گیا برے اچھے کو کاٹ کر
پہلے بنایا زاویہ اس دل میں قید کا
پھر گھر بنا لیا اسی پنجرے کو کاٹ کر
اس روشنی کی لو سے دھواں داغدار تھا
جلتا چراغ گل کیا دھاگے کو کاٹ کر
شدت پسند شخص تھا جس کو تھا مجھ سے پیار
سینے کو نوچتا تھا وہ کرتے کو کاٹ کر
اس کی دغا تھی جس میں دعا ہی مقیمؔ تھی
سمجھا لیا ہے خود کو یہ نقطے کو کاٹ کر
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.