صدیوں سے تھا جو درپئے آزار گر گیا
صدیوں سے تھا جو درپئے آزار گر گیا
اپنا عدو وہ غازیٔ گفتار گر گیا
کپڑوں کی قید سے ہوا آزاد اس کا جسم
وہ شخص جس گھڑی سر بازار گر گیا
جب سرخیوں پہ اپنی نگاہیں ٹھہر گئیں
ہاتھوں سے اپنے آج کا اخبار گر گیا
بے خواب رہ کے سب کو وہ کرتا تھا فیضیاب
جب سو گیا تو سایۂ دیوار گر گیا
وہ زلزلہ تھا یا کہ قیامت کا سلسلہ
سانسوں کے سبز شہر کا مینار گر گیا
مایوسیوں کی فوج نے حملے کئے بہت
لمحوں کے رن میں رہبر کردار گر گیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.