سفر حیات کا اب موت کے سراب میں ہے
سفر حیات کا اب موت کے سراب میں ہے
ہر ایک سانس ابھی پنجۂ عذاب میں ہے
سناتی آئی ہے دنیا جسے ازل سے وہی
ادھورے عشق کا قصہ مری کتاب میں ہے
ہوا اڑا کے نہ لے جائے یہ متاع حیات
ابھی تو بند یہ خوشبو گل حباب میں ہے
یہ بوجھ لاد کے میں اور کتنی دور چلوں
سنا ہے شہر وفا پردۂ سراب میں ہے
شب فراق کی تنہائیوں کو ڈسنے دو
کہ مہر صبح ابھی میرے رعب و داب میں ہے
یہی تو جذبہ مجھے قتل گہہ میں لے آیا
وہ بے نقاب تو ہوگا جو اب نقاب میں ہے
سزا وفاؤں کی دی ہے خطا معاف ہوئی
یہ الٹی گنتی بھی ان کے عجب حساب میں ہے
سوار توسن ہستی ہوں اس سلیقے سے
لگام ہاتھ میں عارفؔ نہ پا رکاب میں ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.