سفر ہوگا نہیں جب خاک خاک اڑتی رہے گی
سفر ہوگا نہیں جب خاک خاک اڑتی رہے گی
مثال گردش افلاک خاک اڑتی رہے گی
طریق عشق میں ہر گام ہے اندیشۂ غم
سنبھل چلیو اذیت ناک خاک اڑتی رہے گی
بدن کی حیرتوں سے مت نکلیو بارشوں میں
جل اٹھی یہ اگر پوشاک خاک اڑتی رہے گی
تماشا گر یہ آتش باز سارے بے خبر ہیں
جو پھیلی آگ عبرت ناک خاک اڑتی رہے گی
بس اب کچھ دن خس و خاشاک ہو جائے گا سب کچھ
بس اب کچھ روز پھر سفاک خاک اڑتی رہے گی
مسافر راہ لے گا منزلوں کی اور عقب میں
ان آنکھوں سے بہت نمناک خاک اڑتی رہے گی
دکھائی بھی نہیں دے گی بدن غرقاب کرکے
میان وصل اک چالاک خاک اڑتی رہے گی
دکان دل بڑھا دیں گے اگر بازار میں ہم
برہنہ سر وہاں بے باک خاک اڑتی رہے گی
کوئی تاراج کرنے بستیاں آ جائے گا اور
زمیں ہوتی رہے گی چاک خاک اڑتی رہے گی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.