سفر کیسا یہ کرنا پڑ رہا ہے
سفر کیسا یہ کرنا پڑ رہا ہے
شراروں سے گزرنا پڑ رہا ہے
فضائیں تو معطر ہو رہی ہیں
گلابوں کو بکھرنا پڑ رہا ہے
کسی کو زندگی دینے کی خاطر
ہمیں ہر روز مرنا پڑ رہا ہے
بدن میں ہیں ہزاروں زخم پھر بھی
سمندر میں اترنا پڑ رہا ہے
جہاں چلتے ہوئے جلتے ہیں تلوے
وہاں ہم کو ٹھہرنا پڑ رہا ہے
شکم سے باندھ کر شاعر کے پتھر
غزل کا پیٹ بھرنا پڑ رہا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.