سفر کی رات ہے دریا کو پار کرنا ہے
سفر کی رات ہے دریا کو پار کرنا ہے
سفینہ ڈوب گیا ہے مجھے ابھرنا ہے
تمہارے بعد ابھی ان شکستہ قدموں سے
پہاڑ چڑھنے ہیں دریاؤں میں اترنا ہے
وہ سنگ دل جو ابھی رو پڑا تو علم ہوا
کہ اس پہاڑ کے سینہ میں ایک جھرنا ہے
میں خوش لباس سمجھ کر پہن رہی ہوں کفن
میں زندگی ہوں مرا کام رنگ بھرنا ہے
مٹانا خود ہے مجھے اپنے اندروں کا شور
مگر یہ کام بہت خاموشی سے کرنا ہے
مٹا رہی ہوں چٹخ رنگ سب شبیہ کے میں
کہ کینوس کو بہت سادگی سے بھرنا ہے
کسی کی موت پہ اکثر یہ سوچتی ہوں میں
مجھے بھی کل کو اسی راہ سے گزرنا ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.