سفر میں اب بھی عادتاً سراب دیکھتا ہوں میں
سفر میں اب بھی عادتاً سراب دیکھتا ہوں میں
قریب مرگ زندگی کے خواب دیکھتا ہوں میں
ہوا نے حرف سادہ میرے ذہن سے اڑا لیا
تو اب ہر ایک بات پر کتاب دیکھتا ہوں میں
بہار کی سواریوں کے ہم رکاب کیوں رہے
خزاں کا برگ و بار پر عتاب دیکھتا ہوں میں
کھڑا ہوں نوک خار پر گمان در گمان پر
کھلے گا کب حقیقتوں کا باب دیکھتا ہوں میں
عجیب اس کی سروری نئی ہے شان ہر گھڑی
بنوں میں شہر، شہر میں سراب دیکھتا ہوں میں
نظر فریب ڈھنگ ہیں ستم گروں کے رنگ ہیں
نگہ میں قہر ہاتھ میں گلاب دیکھتا ہوں میں
غزل سے چھیڑ چھاڑ کو گناہ جانتا تھا میں
مگر اب اس گناہ میں ثواب دیکھتا ہوں میں
سہیلؔ شام ڈھل گئی دکان اپنی بڑھ گئی
ذرا سی روشنی ہے اور حساب دیکھتا ہوں میں
- کتاب : Mujalla Dastavez (Pg. 266)
- Author : Aziz Nabeel
- مطبع : Edarah Dastavez (2010)
- اشاعت : 2010
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.