سفر میں اب کے عجب تجربہ نکل آیا
دلچسپ معلومات
کیفی وجدانی کی نذر
سفر میں اب کے عجب تجربہ نکل آیا
بھٹک گیا تو نیا راستہ نکل آیا
مرے ہی نام کی تختی لگی تھی جس در پر
وہ جب کھلا تو کسی اور کا نکل آیا
دکھوں کی جھاڑیاں اگتی چلی گئیں دل میں
ہر ایک جھاڑی سے جنگل گھنا نکل آیا
اک اور نام جڑا دشمنوں کے ناموں میں
اک اور دوست مرا آئینہ نکل آیا
کچھ آج اشکوں کی لذت نئی نئی سی ہے
پرانے غم کا نیا ذائقہ نکل آیا
یہ میرا عکس ہے یا اور ہے کوئی مجھ میں
کہ جس کا قد مرے قد سے بڑا نکل آیا
بڑھے کچھ اس طرح دونوں ہی دوستی کی طرف
کہ درمیاں میں نیا فاصلہ نکل آیا
دعا سلام سے آگے جو تھوڑی بات بڑھی
جو اس کا دکھ تھا وہی دکھ مرا نکل آیا
مری غزل میں کسی بے وفا کا ذکر نہ تھا
نہ جانے کیسے ترا تذکرہ نکل آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.