سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
سفر میں یاد نہ آئے کوئی ٹھکانہ ہمیں
غم زمانہ لگا ایسا تازیانہ ہمیں
امیر شہر نے کاغذ کی کشتیاں دے کر
سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں
جہاں سے ساتھ زمانے کو لے کے چلنا تھا
وہیں پہ چھوڑ گئی گردش زمانہ ہمیں
ہر ایک سمت کھڑی ہیں بلند دیواریں
تمام شہر نظر آئے قید خانہ ہمیں
ملوک ہم نفساں دیکھ کر یہ دھیان آیا
کہ کاش پھر ملے دشمن وہی پرانا ہمیں
ہوائے صبح دل آزار اتنی تیز نہ چل
چراغ شام غریباں ہیں ہم بجھا نہ ہمیں
نگاہ پڑتی ہے پھر کیوں پرائی شمعوں پر
اگر عزیز ہے محسنؔ چراغ خانہ ہمیں
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.