سفر مجھ پر عجب برپا رہی ہے
مری وحشت مجھے چونکا رہی ہے
کہیں سے آ رہی ہے تیری خوشبو
اداسی دور ہوتی جا رہی ہے
ابھی تک خود نہیں سمجھی ہے جس کو
مجھے وہ بات بھی سمجھا رہی ہے
امیروں کے بچے ٹکڑوں کو چن کر
غریبی بھوک کو بہلا رہی ہے
مبارک شام کی آمد مبارک
کسی کی یاد لے کر آ رہی ہے
گئی شب آنکھ میں جو مر گیا تھا
اداسی خواب وہ سہلا رہی ہے
بہت مغرور ہے یہ بادشاہی
ہمارے عشق کو چنوا رہی ہے
درختوں پر نئے زیور اگے ہیں
زمیں دلہن بنی شرما رہی ہے
ہمارے درمیاں الفاظ گم ہیں
''خموشی انگلیاں چٹخا رہی''
بہت امید تھی اس زندگی سے
مگر امید یہ مرجھا رہی ہے
ضیاؔ جلوہ ہے ناصرؔ کاظمی کا
غزل یہ خود مجھے تڑپا رہی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.