سحر ہی آئی نہ وہ شاہد سحر آیا
سحر ہی آئی نہ وہ شاہد سحر آیا
غبار شب کا مسافر ہی میرے گھر آیا
تھکن کی دھوپ ڈھلی بھی نہیں تھی سر سے ابھی
عذاب حکم سفر مجھ پہ پھر اتر آیا
دیا جلاتے ہوئے ہاتھ کانپتے کیوں ہیں
کہاں سے خوف بدن میں ہوا کا در آیا
یہ لمحہ لمحہ بکھرتی ہوئی انا کا وجود
نہ یہ زمین نہ وہ آسماں نظر آیا
ردا رہی نہ بدن پر کوئی قبا شاداب
یہ کون دھوپ میں دیکھو برہنہ سر آیا
بدن تمام ہوا ہے لہو لہان مرا
نئی رتوں کا مسافر بہ چشم تر آیا
بہت عزیز ہے اپنے وطن کی خاک ہمیں
جو خواب آنکھوں میں آیا وہ معتبر آیا
- کتاب : karb-e-anaa (Pg. 35)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.