سحر جب مسکرائی تب کہیں تاروں کو نیند آئی
سحر جب مسکرائی تب کہیں تاروں کو نیند آئی
بہت مشکل سے کل شب درد کے ماروں کو نیند آئی
سنا ہے شام سے ہی تاک میں بیٹھے ہیں سب گلچیں
قیامت گل پہ آئے گی اگر خاروں کو نیند آئی
ہمیشہ ذہن و دل میں کچھ نہ کچھ چلتا ہی رہتا ہے
ہوئے جو فکر سے خالی تو فنکاروں کو نیند آئی
ازل سے پوری شدت سے خلاؤں میں معلق ہیں
کبھی تم نے سنا ہے یہ کہ سیاروں کو نیند آئی
مسلسل ناز برداری سے عاجز آ چکا تھا میں
چلو اچھا ہوا کم بخت آزاروں کو نیند آئی
یہ تخلیقی عناصر ورنہ مصروف عمل ہی تھے
گئی جو روح اس عالم میں تو چاروں کو نیند آئی
وگرنہ شادؔ بے خوابی میں گزری زندگی ان کی
رکا جب کاروان زیست بنجاروں کو نیند آئی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.