سہمی ہوئی گلشن میں ہر اک آج کلی ہے
سہمی ہوئی گلشن میں ہر اک آج کلی ہے
شعلوں کی کبھی پیاس بھی شبنم سے بجھی ہے
جو آگ دہکتی ہے سمندر کے جگر میں
ساحل کے لبوں پر بھی وہی تشنہ لبی ہے
ظلمت کے حصاروں میں رہی رات بھی لیکن
اک شمع بجھی جب وہیں اک شمع جلی ہے
تلوار بھی گردن پہ ہو جینا بھی ضروری
اس عہد کا شاید وہ کوئی ایک ولی ہے
اندر سے شکستہ رہوں باہر سے شگفتہ
یہ راہ علی ہے کہ رخ بو لہبی ہے
غرقاب ہے سورج ہیں نگاہوں میں اجالے
بخشش یہی سوغات زمانے سے ملی ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.