صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
صحن مقتل میں ہر اک زخم تمنا رکھ دو
اور قاتل کا نیا نام مسیحا رکھ دو
اب تو رسوائی کی حد میں ہے میری تشنہ لبی
اب تو ہونٹھوں پہ دہکتا ہوا شعلہ رکھ دو
کتنی تاریک ہے شب میرے مکاں کی یاروں
ان منڈیروں پہ کوئی چاند سا چہرہ رکھ دو
اب کی بارش میں مرا نام چمک جائے گا
لاکھ تم ریت کی تہہ میں مرا کتبہ رکھ دو
پھر بھی حق بات کے کہنے سے نہ بعض آؤں گا
میرے ہاتھوں پہ بھلے دولت دنیا رکھ دو
نیند سی آنے لگی زلف کے سائے میں مجھے
پھر مرے خوابوں پہ تپتا ہوا صحرا رکھ دو
میرے افسانے کو پھر موڑ نیا سا دے دو
اور عنوان سلگتا ہوا لمحہ رکھ دو
جو سمجھتے ہی نہیں میری زباں کو عشرتؔ
ان کے افکار میں میرا لب و لہجہ رکھ دو
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.