صحرا میں ہوں جنوں کے بھی آثار ہی نہیں
صحرا میں ہوں جنوں کے بھی آثار ہی نہیں
سر پھوڑنے کے واسطے دیوار ہی نہیں
جس کی دوائے دل کی ضرورت کے واسطے
ہم چارہ گر ہوئے تو وہ بیمار ہی نہیں
اپنے وطن کی خاک لیے پھر رہا ہوں میں
اس کی وفاؤں سے مجھے انکار ہی نہیں
تقدیر کے ہیں کھیل جواں عشق جب ہوا
تب کھیلنے کے واسطے منجھدار ہی نہیں
ہم رہ نورد شوق کو صحرا ہی ٹھیک ہے
کیا لطف میکدے میں اگر یار ہی نہیں
صد افتخار غیروں کو دیدار عام ہے
صد حیف ہم کو دعوت دیدار ہی نہیں
بے بس ہی کر دیا ہے ارادوں نے اے سہیلؔ
قسمت نے کر دیا مجھے لاچار ہی نہیں
- کتاب : اردو غزل کا مغربی دریچہ(یورپ اور امریکہ کی اردو غزل کا پہلا معتبر ترین انتخاب) (Pg. 332)
- مطبع : کتاب سرائے بیت الحکمت لاہور کا اشاعتی ادارہ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.