صحرا میں کڑی دھوپ کا ڈر ہوتے ہوئے بھی
صحرا میں کڑی دھوپ کا ڈر ہوتے ہوئے بھی
سائے سے گریزاں ہوں شجر ہوتے ہوئے بھی
ماں باپ کا منظور نظر ہوتے ہوئے بھی
محروم وراثت ہوں پسر ہوتے ہوئے بھی
یہ جبر مشیت ہے کی تنہائی کی عادت
میں قید ہوں دیوار میں در ہوتے ہوئے بھی
ہم ایسے پرندوں کی ہے اک پیڑ سے نسبت
اڑ کر کہیں جاتے نہیں پر ہوتے ہوئے بھی
ہر چیز لٹا دینا فقیروں کا ہے شیوہ
کم ظرف ہیں کچھ صاحب زر ہوتے ہوئے بھی
اس دیس کا باسی ہوں کی جس دیس کا ہاری
مایوس ہے شاخوں پہ ثمر ہوتے ہوئے بھی
سورج سے کرے دوستی اک کور بسر کیا
جلوے کی نہیں تاب نظر ہوتے ہوئے بھی
کچھ ہار گئے جبر کے با وصف بھی ظالم
کچھ جیت گئے نیزوں پہ سر ہوتے ہوئے بھی
تجھ جیسا عدد اپنے تئیں کچھ بھی نہیں ہے
میں تیری ضرورت ہوں صفر ہوتے ہوئے بھی
ہنسنا مری آنکھوں کا گوارا نہیں اس کو
اور دیکھ نہیں سکتا ہے تر ہوتے ہوئے بھی
پھر دشت نوردی نے دکھائی یہ کرامت
میں شہر میں تھا شہر بدر ہوتے ہوئے بھی
اس بار تھے کچھ دوست مرے مد مقابل
سینے پہ سہے وار سپر ہوتے ہوئے بھی
ایسے بھی زبوں حال کئی لوگ ہیں کاشرؔ
بے گھر ہیں اسی شہر میں گھر ہوتے ہوئے بھی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.