صحرا پہ گر جنوں مجھے لاوے عتاب میں
صحرا پہ گر جنوں مجھے لاوے عتاب میں
کھینچوں ہر ایک خار کو پائے حساب میں
اس برق کی طرح سے کہ ہو وہ سحاب میں
آتش دی بخت بد نے مجھے عین آب میں
دیکھی تھی زلف رات کسی کی میں خواب میں
اب تک ہے بال بال مرا پیچ و تاب میں
ٹک غور کر تو بو قلموں کا فلک کے ڈول
اک رنگ ہے نیا ہی ہر اک انقلاب میں
اس شعلہ خو سے کسب حرارت کرے ہے داغ
ذرہ ہے جس کا سوز دل آفتاب میں
مے پی جو چاہے آتش دوزخ سے تو نجات
جلتا نہیں وہ عضو جو تر ہو شراب میں
جوں موج مجھ سے موجب بے طاقتی نہ پوچھ
اک عمر ہے کہ ہوں میں اسی اضطراب میں
قاضی خبر لے مے کو بھی لکھا ہے واں مباح
رشوت کا ہے جواز تری جس کتاب میں
روز شمار گو ہو مرے ساتھ باز پرس
میں کیا ہوں اور میرے گنہ کس حساب میں
یہ سرکشی ہے اتنی تنک مایگی پہ کیا
جھمکا نہیں ہے بحر اگر اس سحاب میں
کیا کیجے ہووے چشم میاں تیری ہی جو کور
ظاہر ہے ورنہ حسن وہی ہر نقاب میں
ناصح نہ تازہ عشق کی میں وضع کی ہے راہ
ہر کچھ کرے ہے آدمی عہد شباب میں
قائم ہے یہ بھی طور کوئی زندگی کا یاں
گزری تمام عمر تری خور و خواب میں
قائمؔ ہو کس طرح سے بہم شکل اختلاط
وہ اس غرور ناز میں ہم اس حجاب میں
- Deewan-e-Qaem Chandpuri (Rekhta Website)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.