صحرا صحرا بات چلی ہے نگری نگری چرچا ہے
صحرا صحرا بات چلی ہے نگری نگری چرچا ہے
رات کے غم میں سورج سائیں بادل اوڑھے پھرتا ہے
جھونکا جھونکا تیری خوشبو مجھ سے لپٹ کر گزری ہے
ریزہ ریزہ تیری خاطر میں نے جسم گنوایا ہے
دن بھر بادل چھم چھم برسا شام کو مطلع صاف ہوا
تب جا کر اک قوس قزح پر تیرا پیکر ابھرا ہے
تو نے جس کی جھولی میں دو پھول بھی ہنس کر ڈال دیے
ساری عمر وہ کاغذ پر خوشبو کی لکیریں کھینچتا ہے
تم کیوں تیز نوکیلے نیزے تان کے مجھ پر جھپٹے ہو
میرا مقدر تند بگولو یوں بھی تو بجھ جانا ہے
میں نے اپنے گرد بنا لی زخموں کی دیوار نئی
ایک پرانا غم لیکن رہ رہ کر مجھ پر ہنستا ہے
جلتے جلتے میں بجھ جاؤں یا تو اگنی روپ میں آ
تیرا میرا میل ہو کیسے میں سورج تو سایہ ہے
سب کہسار سمندر صحرا گھومیں اس کے گرد رشیدؔ
وہ اک شخص جو دنیا بھر میں تنہا تنہا رہتا ہے
- کتاب : Fasiil-e-lab (Pg. 83)
- Author : Rashiid Qaisarani
- مطبع : Aiwan-e-urdu Taimuriya karachi (1973)
- اشاعت : 1973
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.