صحرا سے پوچھتا ہے کوئی سوگوار پیڑ
صحرا سے پوچھتا ہے کوئی سوگوار پیڑ
کیا اب بھی ڈھونڈتے ہیں مجھے سبزہ زار پیڑ
مٹی میں اتنی تاب کہاں پیڑ بن سکے
دیوار سے نکال کوئی سایہ دار پیڑ
تہذیب اپنی آپ نمو کر رہی ہے آج
پیپل سے اگ پڑے ہیں کھجوروں کے چار پیڑ
بڑھتے چلو کہ راہ نکل آئے خود بخود
اگتے ہیں جیسے دوست سر کوہسار پیڑ
میں بھی زمیں کی نسل کشی میں شریک ہوں
کرتے نہیں تبھی تو مرا اعتبار پیڑ
پھولوں کی جستجو میں ہتھیلی ہے تار تار
دنیا ہو جیسے دشت میں اک خار دار پیڑ
بوئے ہیں میں نے بیج رویوں کی فصل کے
دیکھے گی اگلی نسل یہاں بے شمار پیڑ
اے وقت اے عظیم درختوں کی خود نوشت
فہرست میں ہے اب بھی کوئی شاندار پیڑ
اس نے چھوا تھا باغ میں بس ایک پیڑ کو
اب تک کھڑے ہوئے ہیں وہاں مشک بار پیڑ
گوتم نے اپنی ذات کے عرفان کے لئے
انسان کے بجائے کیا اختیار پیڑ
تاریخ انقلاب کی محتاج کب ہوئی
پتھر سے اگ پڑے ہیں کئی شاہکار پیڑ
وحشت کی تیز دھوپ نے جھلسا کے رکھ دیا
یا رب کوئی فلک سے ہی مجھ پر اتار پیڑ
ہجرت کے وقت باپ نے مجھ سے کہا منیرؔ
ساماں تو سب سمیٹ لیا اور یار پیڑ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.