سیلاب کا گزر بھی تو لوگوں کی موت ہے
سیلاب کا گزر بھی تو لوگوں کی موت ہے
دریا کا بانجھ پن جہاں نہروں کی موت ہے
کچھ بھی تو کہنا روبرو بہروں کے ہے فضول
جیسے خلا میں چیخنا چیخوں کی موت ہے
رستہ سڑک تلک نہ مسافر کو دیں اگر
میرے خیال میں تو یہ گلیوں کی موت ہے
آنکھوں سے نیند کے سبھی آثار گمشدہ
شب بھر ہمارا جاگنا خوابوں کی موت ہے
ماحول کی حفاظتیں لازم ہیں دوستو
تتلی کی موت اصل میں پھولوں کی موت ہے
بارش ہو دھوپ میں کہ دھنک آسماں پہ ہو
آنکھیں نہ ہوں تو یہ بھی نظاروں کی موت ہے
بکھرے پڑے ہیں جا بجا کتنے ہی خال و خد
یعنی کہ ٹوٹا آئنہ چہروں کی موت ہے
بے شک فصیل جی اٹھی گارے کے وار سے
لیکن زمانؔ یہ تو دراڑوں کی موت ہے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.