سجے ہیں دار صلیبوں پہ سر نہیں آیا
سجے ہیں دار صلیبوں پہ سر نہیں آیا
کسی کی روح میں اب تک بھنور نہیں آیا
پڑھا تھا ظلم کی حد پر ہے انقلاب کہیں
ہماری راکھ میں اب تک شرر نہیں آیا
بہت کٹھن تھا سفر پاؤں گھس گئے میرے
ہوئی ہے شام مگر میرا گھر نہیں آیا
پھنسا ہے قافلہ اب بھیڑیوں کے نرغے میں
ہے انتظار پر اب تک قمر نہیں آیا
جھکے ہوؤں کو یہاں خلعتیں صلے میں ملیں
میں چاہتا تھا مگر یہ ہنر نہیں آیا
صدا لگائی ہے پر بند ہیں دریچے سبھی
صدا میں میری ابھی وہ اثر نہیں آیا
ریاضتوں میں کمی رہ گئی کہیں شاہدؔ
حیات ختم ہے لیکن ثمر نہیں آیا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.