سمندر سے غم و غصہ کے طغیانی نہیں جاتی
سمندر سے غم و غصہ کے طغیانی نہیں جاتی
شکایت چیز ایسی ہے بہ آسانی نہیں جاتی
نگاہوں نے نہ جانے اس کی دیکھے کون سے منظر
بہت چاہا پہ آنکھوں سے یہ ویرانی نہیں جاتی
تخیل دستکیں دے کر پلٹ جاتا ہے اکثر ہی
انا کی جذبۂ دل پر نگہبانی نہیں جاتی
بہت ممکن ہے خط کا بھی ترے مضموں بدل جائے
ابھی تو بس لکھاوٹ ہے جو پہچانی نہیں جاتی
دل بے صبر اکثر آرزؤں پر مچلتا ہے
مگر اس کی کبھی اک بات بھی مانی نہیں جاتی
کوئی سچ کو جو کہہ دے سچ تو بھاری ہے طبیعت پر
کہ ہے سننے کی عادت ظل سبحانی نہیں جاتی
نہیں دے پائے ہم پر امن ملک و قوم بچوں کو
یقیں مانو نہ مانو یہ پشیمانی نہیں جاتی
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.